ہر فرد کو سپاہی کا درجہ دے دیں

ہر فرد کو سپاہی کا درجہ دے دیں

239 0 0

ابھی بچوں کے اغواء کا معمہ حل نہیں ہو سکا تھا کہ پاکستانیوں کا ماہِ مبارک آن پہنچا اور ہم پاکستانی سب کچھ بھلا کر اگست کی رونقوں میں مگن ہو گئے۔ آج کل ہم پاکستانی، پاکستان کی آزادی کا پرجوش جشن منانے کی تیاریوں میں مگن ہیں۔ ہر طرف خوب گہما گہمی ہے اور سبز ہلالی پرچم لہراتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ سبز ہلالی پرچم چاہے گھروں کی چھتوں پر لگے ہوں، بجلی کہ کھمبوں پر یا بیچنے والے کہ ٹھیلے پر، ہماری اپنے وطن سے والہانہ محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جیسے جیسے دشمن کی چالوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے عرضِ پاک کی محبت ہمارے دلوں میں اور بڑھتی جا رہی ہے۔

دشمن تو دشمن ہے، وہ ہمیں کیسے خوش دیکھ سکتا ہے۔ ابھی کشمیر میں ہونے والے ظلم کی داستانوں پر ساری قوم غم و غصہ میں مبتلا تھی۔ دوسری طرف ہمارے معصوم بچوں کہ چہروں پر دشمن نے خوف کہ بادل تان دیے۔ ان اغواء کاروں کی وجہ سے آج پاکستان میں کسی بھی کونے میں ماں اپنے جگر کہ ٹکڑوں کو کس کرب اور تکلیف سے سکول یا مدرسے بھیج رہی ہیں۔ ہمارے لئے اس کا اندازہ لگانا اتنا آسان نہیں۔ ابھی ان مسائل میں الجھے ہی ہوئے ہیں کہ گزشتہ روز کوئٹہ کے سول ہسپتال میں دشمن نے اپنی عیاری سے اتنہائی ظلم اور سفاکیت کی نئی مثال رقم کر دی۔

ہم پاکستانی مسائل کی بھٹی میں پک پک کر ہی بڑے ہوتے ہیں۔ ہم ان سے گھبرانے والی قوم نہیں ہیں۔ جب ہم اپنے حکمرانوں کہ بچھائے ہوئے خوبصورت جالوں کو جانتے بوجھتے جھیل سکتے ہیں، تو ہمارے لئے دشمن کا بچھایا ہوا کوئی جال کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔ ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ ہر مسئلے کا حل، پاکستان کی پرعزم اور پرجوش بہادر اور نڈر فوج پاکستان کے پاس ہے۔ ہمیں یقین کرنا پڑے گا کہ ہماری افواج اگر ایسی نہ ہوتی تو پاکستانی عوام کبھی پسپا ہو چکی ہوتی۔ اللہ کہ بھروسے کے بعد زمین پر جو “ہمارا حوصلہ اور ہمارا مان ہے وہ افواجِ پاکستان ہے”۔ ماضی یا حال میں آپ کوئی بھی مسئلہ اٹھا کر دیکھ لیجیے، اس کی نوعیت کیسی بھی ہو، اس کو حل کس نے کیا یا کس نے کروایا؟

جب ہم پاکستانی ان سیاسی مداریوں سے اتنے بری طرح سے متاثر ہوئے بیٹھے ہیں اور یہ ہمیں عرصہ دراز سے جانوروں سی زندگی گزارنے پر مجبور کئے ہوئے ہیں تو پھر ہم سیاسی طریقے ترک کر کے “سپاہ گری کی روش” کیوں نہیں اپنا لیتے اور دشمن کو باور کرا دیتے کہ اب اس ملک کا ہر شہری، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، وہ اس ملک کا “سپاہی” ہے اور عرض پاک پر اپنا خون اور جان نچھاور کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہے۔ یہاں دھماکوں میں، اندھادھند گولیوں میں، سیلابی ریلوں میں، زلزلوں میں، مخدوش عمارتوں کہ گر جانے میں، فیکٹریوں میں آگ لگنے میں، موت کا رقص ہر وقت زوروشور سے ہمارے اردگرد جاری رہتا ہے۔

آخر کہاں تک اور کب تک عوام یونہی لاشیں اٹھاتے رہینگے اور سینہ کوبی کرتے رہینگے۔ ہر گزرتا ہوا دن تہہ در تہہ خوف میں لپٹا ہوا ہے۔ ہمارے جسموں میں دوڑتا لہو اس خوف سے خشک ہوئے جا رہا ہے۔ روزانہ یہ خوف ایک نئی شکل میں نمودار ہو جاتا ہے اور ہم نہتے لوگوں کو ڈرانے کھڑا ہو جاتا ہے۔

گزشتہ ہفتے انسپکٹر جنرل سندھ جناب اللہ ڈنو خواجہ صاحب نے بھی ایک ایسے اقدام کی بھرپور پذیرائی کی جب انہوں نے کراچی کہ ایک شہری (یاسر جمیل) کو اس کی بہادری کے اعتراف میں پچاس ہزار روپے کے انعام سے نوازا۔ یاسر جمیل کی بہادری اور لائسنس یافتہ اسل